Faraz Faizi

Add To collaction

31-May-2022-تحریری مقابلہ(Opne) اسلام کی روشن تعلیمات، ویب سیریز ٣، دین اسلام کا اعجاز اور یتیموں ک


بقلم: فرازفیضی کشنگنجوی

مذہب اسلام نے اپنی روشن تعلیمات اور احکامات کے ذریعہ مختلف شعبہائے زندگی میں جس قدر اپنے ماننے والوں کے لئے کامیابی کی راہیں ہموار کر دیا ہے اس کی مثال دنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں ملتی۔ جس طرح ماں باپ (جو کہ ہمارے وجود کے ظاہری سبب بنے) سے لے کر خاندانی افراد سے ہوتے ہوئے آس پاس بسنے والے پڑوسیوں کے حقوق کی پاسداری کرنے کرنا سکھیا اسی طرح یتیموں کے حقوق اور انکے ساتھ بھلائی کا حکم دیا۔ ان کا مال غصب نہ کرنے کی تلقین کی، اور ان کے ساتھ بھلائی نہ کرنے والوں کیلئے خدائی عذاب سے بھی ڈرایا۔ایسا اس لئے کہ دورِ جاہلیّت میں یتیموں کے بارے میں اہلِ عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ان کے مالوں پر قبضہ کر لیتے ،ان پر دباؤ ڈالتے اور ان کے حقوق کے معاملے میں ان کے ساتھ زیادتی کیا کرتے تھے، تو آیت مبارکہ اتاری :فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْ" ترجمہ کنزالایمان: تو یتیم پر دباو نہ ڈالو" اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ،آپ کسی بھی صورت یتیم پر سختی نہ فرمائیے گا۔( خازن، الضحی، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۳۸۷)

دین ِاسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے یتیموں کے حقوق واضح کئے،ان کے چھینے ہوئے حق انہیں واپس دلائے اور عرصۂ دراز سے یتیموں پر جاری ظلم و ستم کا خاتمہ کیا ۔یتیموں کے بارے میں دین ِاسلام نے مسلمانوں کو کیسی عمدہ تعلیم دی ہے اس کی کچھ جھلک ملاحظہ ہو۔

یتیموں کے مال کے بارے میں احکام خداوندی : ’’وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفً" الی آخر الآیة۔(النساء:۵، ۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اورکم عقلوں کوان کے وہ مال نہ دوجسے اللّٰہ نے تمہارے لئے گزر بسر کا ذریعہ بنایاہے اور انہیں اس مال میں سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھی بات کہو۔اور یتیموں (کی سمجھداری)کو آزماتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے قابل ہوں تو اگر تم ان کی سمجھداری دیکھو تو انکے مال ان کے حوالے کردو اور ان کے مال فضول خرچی سے اور (اس ڈر سے)جلدی جلدی نہ کھاؤ کہ وہ بڑے ہو جائیں گے اور جسے حاجت نہ ہو تو وہ بچے اور جو حاجت مند ہو وہ بقدرمناسب کھاسکتا ہے پھر جب تم ان کے مال ان کے حوالے کرو تو ان پر گواہ کرلو اور حساب لینے کے لئے اللّٰہ کافی ہے ۔

قارئین معزز!  آیت مبارکہ سے پتہ چلا ( ١ )جس کسی کے ذمہ یتیم کی پروش ہو اسے چاہئے کہ بڑے احتیاط سے حکم الہی کی بجا آوری کرے کسی کم عقل کو یہ ذمہ نہ سونپ دے! کیوں کہ یہ اس شخص کے گزر بسر کا ذریعہ بھی ہے۔ ( ٢ ) ان کے مال سے ہی ان کھانے پینے اور پوشاک کا انتظام کرے (٣ ) ان سے گفتگو میں نرمی رکھے، اچھی بات کہے، گالی گلوچ یا طعنہ کشی نہ کرے ( ۴ ) جب تک یتیم نکاح کے قابل نہ ہو جائے اس کی سمجھداری کو پرکھا جائے اگر وہ اپنے معمولات زندگی کو چلانے کے قابل پائے جائیں تو ان کے مال (جو مرنے والے نے چھوڑا ہے) انکے سپرد کر دے۔ ( ۵ بہت سے لوگ یہ قبیح سوچ رکر یتیموں مال کھاتے اور فضول اڑاتے ہیں کہ وہ جلد بڑے ہوگئے تو ان کو دینا پڑے گا!! جب کہ وہ خود مال دار ہوتے ہیں لیکن لالچ ہونے بنا پر یہ گناہ کرتے ہیں۔تو اس سے بھی روکا گیا۔ ( ٦ ) کسی ایسے شخص کے ذمہ یتیم کی پرورش آئی کہ وہ خود محتاج ہے تو اب اسے اجازت ہے کہ وہ اس مال سے بقدر حاجت کھا سکتا ہے ورنہ نہیں۔ ( ٧ ) جب یتیموں کو ان کے مال دئے جائیں تو لازم ہے کہ کچھ لوگوں کو گواہ بنایا جائے تاکہ بعد میں اس پر انکار کی صورت پیدا نہ ہو، ایسا ہونے پر وہ گواہان کافی ہوں گے اور نہیں ہوئے تو پھر اللہ عزوجل حساب لینے کیلئے کافی ہے۔۔۔۔

   27
20 Comments

fiza Tanvi

10-Sep-2022 10:29 PM

Wonderful ❣️

Reply

Anuradha

10-Sep-2022 02:57 PM

ماشاءاللہ ماشاءاللہ❤️

Reply

Manzar Ansari

08-Jun-2022 11:45 PM

Mashallah

Reply